مجھے مایوس ہونا ہی نہیں آتا

مجھے مایوس ہونا ہی نہیں آتا
نا جانے کیسی جیتی جاگتی مٹی
میری تعمیر میں شامل ہے
جس Ù†Û’ ہر Ø+الت میں
مجھ کو زندگی کرنے پہ اکسایا

ادھر جب دکھ مجھ پر چٹانوں Ú©ÛŒ طرØ+ برستے ہیں
تو مجھ کو اک پتھر کے تلے
جب پھوٹتی کونپل دکھائی دے رہی ہو
تو یہ سب کی سب چٹانیں ریزہ ریزہ ہوجاتی ہیں
ادھر بدخواہ مل کر مجھ پہ جب یلغار کرتے ہیں
تو اک چھوٹی سی بچی کی شگفتہ مسکراہٹ
اک صلابت بن کے
میرے باطن میں اتر جاتی ہے
اور مجھ پر جو Ø+ملہ کرنے آتے ہیں
Ú©Ú†Ú¾ اس انداز سے تØ+لیل ہوجاتے ہیں
جیسے انکا ہونا بھی نا ہونے کے برابر ہے
ادھر جب آسمان سے بجلیاں برسائی جاتی ہیں
تو میں اپنے کھلے کھلیان کو
اپنے بدن سے ڈھانپ لیتا ہوں
کڑکتی بجلیاں جب ہانپ جاتی ہیں
تو بجھ جاتی ہیں
تب میرا کھلا کھلیان
اپنے تخلیقی نوادر
عالم انسانیت میں بانٹ دیتا ہے



مجھے مایوس ہونا ہی نہیں آتا
مجھے Ù…Ø+سوس ہوتا ہے
عناصر کی لگامیں میری مٹھی میں ہیں
میری ڈھال میرے پھول ہیں
میرے پرندے میرے پہرےدار ہیں
اور میری صبØ+یں میرا آنگن ہیں
وہاں سے نیلی نیلی روشنی کے پار
خلاقِ دو عالم Ú©Û’ نقوش Ø+سن
میرے جسم میں وہ نور بھر دیتے ہیں
جو مجھ کو کبھی مایوس ہونے ہی نہیں دیتا

اØ+مد ندیم قاسمی